ریاست پنجاب میں سکھوں کی مقدس کتاب کی بے ادبی پرہنگامے پھوٹ پڑے ،سکھ مظاہرین نے متعددسڑکیں بلاک کردیں اورپولیس ویگنوں سمیت کئی گاڑیوں کو آگ لگادی،درجنوں سکھ تنظیموں کے سیکڑوں کارکن حکومت کیخلاف احتجاج کرتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے۔بھارتی مطابق سکھ مظاہرین نے متعددسڑکیں بلاک کرکے کئی گاڑیوں کو آگ لگائی اس دورانسکھ مظاہرین اورپولیس میں جھڑپیں بھی ہوئیں ۔اقلیتی معاملات کو ڈنڈے کے زور پر حل کرنے والی بھارتی پولیس کی جانب سے سکھوں کو منتشر کرنے کیلئے واٹرکینن کا استعمال، لاٹھی چارج اور آنسو گیس پھینکے جس میں 15افراد زخمی ہوگئے ہیں زخمیوں میں بھٹنڈر کے آئی جی جتندرا جین اور 12پولیس اہلکار شامل ہیں ۔سکھوں نے حکومتی رویے اور مقدس کتاب کی بے حرمتی پر فرید کوٹ ،فیروز پور بنالا اور دیگر کئی شہروں میں کل ہڑتال کا اعلان کر دیا ہے ۔تفصیلات کے مطابق پنجاب کے ضلع فرید کوٹ میں صوتحال اس وقت کشیدہ ہو گئی جب سکھوں کی مقدس کتاب گرو گرانتھ صاحب کے سو سے زائد صفحات کو گوردوارے کی جانب جانے والی ایک گلی میں پھاڑ کرپھینکا گیا تھا۔صوبے کے وزیر اعلیٰ پرکاش سنگھ بادل نے ملزمان کیخلاف سخت
کارروائی کا عندیہ دیتے ہوئے مظاہرین سے پر امن رہنے کی اپیل کی ہے۔واضح رہے کہ نریندر مودی کی حکومت آنے کے بعد اقلیتوں کو زیادہ نشانہ بنایا جا رہا ہے رواں برس مئی میں ہی امریکی کانگریس کے ایک پینل کی جاری کردہ رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ہ نریندر مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد اقلیتوں کے خلاف تشدد میں اضافہ ہوا ہے۔امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ عام انتخابات کے بعد سے بھارتیہ جنتا پارٹی کے ارکان مذہبی اقلیتوں کے خلاف ہتک آمیز اور اشتعال انگیز بیانات دیتے رہے ہیں اور اقلیتوں کے خلاف حملوں اور راشٹریا سیوک سنگھ اور وشا ہندو پریشد جیسی انتہا پسند تنظیموں کی طرف سے مذہب کی جبری تبدیلی کے واقعات ہوتے رہے ہیں۔رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ گذشتہ سال دسمبر میں ہندو گروہوں نے چار ہزار مسیحی خاندانوں اور ایک ہزار مسلم گھرانوں کے افراد کو اتر پردیس میں ’گھر واپسی‘ کے نام سے چلائی جانے والی مہم میں جبری طور پر ہندو بنانے کا اعلان کیا تھا۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ باوجود ایک سیکولر جمہوریت ہونے کے اقلیتوں کو تحفظ فراہم کرنے اور ان کو انصاف فراہم کرنے میں ناکام رہا ہے جس سے اقلیتوں کے خلاف جرائم کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔